My Advice;
1. Don't stop working hard.
2. Perseverance is dignity.
3. Sharing good among people, your existence should always be beneficial for the creation of Allah.
4. What you love for yourself, love for others.
5. To give up one's choice for the happiness of another.
6. Everyone who is an enemy, a Muslim, or an infidel, may benefit from you.
7. Make your existence fruitful like a tree that cannot bear fruit but must give shade.
8. Forgive the big mistake and be happy, be happy.
والدین کی قدر کریں
ایک بہت ہی لائقسٹوڈنٹ جو کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھا اس نے مختلف کمپنیز میں اپلائی کیا ہوا تھاکیونکہ اس کا اکیڈمک کارڈ بہت شاندار تھا وہ ہمیشہ ہی اپنی کلاس میں ٹاپ کرتا ہے اس ےلئے جہاں جہاں بھی اس نے اپلائی کیا ہوا تھا تقریبا ہر جگہ سے اسے کال آنا شروع ہوگی اس انٹرویو کے لی بلایا گیا اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی سلیکٹ کی اور انٹرویو دینے کے لئے چلا گیا وہ بڑا پراعتماد تھا کہ یہ جاب وہ آسانی سے حاصل کر لے گا
پہلا انٹرویو اس نے آسانی سے کلیئر کر لیا اب فائنل انٹرویو کمپنی کے ڈائریکٹر نے لینا تھا ڈائریکٹر نے ہی فیصلہ کرنا تھا کہ اسے جاب ملے گی یا نہیں وہ انٹرویو دینے کے لیے پہنچ گیا یا تمہارا اکیڈمی کر کارڈ بہت شاندار ہے ہمیشہ ہی تم نے اچھے مارکس حاصل کیے ہیں
مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری اسٹڈیز کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے ڈائریکٹر نے پوچھا لڑکے کواس سوال کی توقع نہیں تھی تھوڑا حیران ہوا میری اسٹیڈیز کے اخراجات میرے والد صاحب ادا کرتے ہیں لڑکے نے جواب دیا اچھا تو تمہارے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں ڈائریکٹر نے اگلا سوال کیا آپ لڑکا تھوڑا ہچکچا یا میرے والد صاحب دھوبی ہیں لوگوں کے کپڑے دھوتے ہیں اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا ڈائریکٹر نے کہا اچھا مجھے اپنے ہاتھ دکھاؤ اب لڑکا تھوڑا حیران ہو رہا تھا خیر اس نے اپنے ہاتھ آگے کر دیے س کے ہاتھ بالکل صاف ستھرے تھے ہاتھوں کی یہ بالکل صاف اور نرم و ملائم تھی
ڈائریکٹر نے پوچھا کیا تمہارے والد صاحب تمہیں بھی کبھی اپنے ساتھ کام پر لے جاتے ہیں ہیں
کیا تم نے کبھی کپڑے دھونے میں ان کی مدد کی ہے لڑکے نے کہا میں نے کئی بار اپنے والد صاحب کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن میرے والد صاحب نے ہمیشہ مجھے منع کر دیا کیونکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ میں اپنی پڑھائی پر دھیان دو دل لگا کر پڑھو تاکہ مجھے ان کی طرح لوگوں کے کپڑے دھونے پڑیں ڈائریکٹر نے کہا اچھا ٹھیک ہے تمہارا انٹرویو یہاں پر ختم ہوتا ہے اب میں تمہیں ایک اسائنمنٹ دینا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ تم وہ کام کرو اور کل دوبارہ او لڑکے نے کہا مجھے کیا کرنا ہوگا ڈائریکٹر نے کہا جب بھی تمہاری اپنے والد صاحب سے ملاقات ہو تو تم نے ان کے ہاتھوں کو دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہیں ان کی جلد کیسی ہے یہ کام کرنے کے بعد کل تم آفس آکر دوبارہ مجھ سے ملنا لڑکا خوشی خوشی آفس سے نکل آیا وہ یہ سوچ کر خوش تھا کہ ڈائریکٹر نے کل دوبارہ بلایا ہے تو مطلب وہ مجھے نوکری پر ضرور لکھے گا
اور والد صاحب کے ہاتھ دیکھنا یہ کون سا مشکل کام ہے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے کی اسے جلدی تھی اس لیے گھر جانے کی بجائے اپنے والد صاحب کے کام کرنے کی جگہ پر چلا گیا والے صاحب حیران ہوئے اور پوچھا بیٹا تمہارا انٹرویو کیسا ہوا ہے اچھا ہوگیا ہے بابا لڑکے نے کہا اور پھر انہیں ساری بات بتائی بابا کل انشاءاللہ مجھے نوکری ضرور مل جائے گی آپ مجھے اپنے ہاتھ دکھائیں اس کے والد صاحب تھوڑا حیران ہوئے لیکن بیٹے کے اصرار پر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے کر دیا اس کے والد کے ہاتھ انتہائی سخت اور کھردرے تھے کام کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر چھالے پڑے ہوئے تھے اور وہ زخمی اور پھٹے ہوئے تھے
اس دن لڑکے کو زندگی میں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ یہ وہی ہاتھ ہیں جو سارا دن محنت کرتے ہیں تاکہ وہ سکون سے زندگی گزار سکے جو سارا دن لوگوں کے کپڑے دھوتے ہیں تاکہ وہ اچھے سکول میں پڑھ سکے اچھا کھا سکے اچھا پہن سکے اس کے بابا کےہاتھوں کا ہر چھالا اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس کی ہر کامیابی کے پیچھے اس کے والد صاحب کی کتنی قربانیاں ہیں اسے احساس ہوا کہ آج جس بھی وہ مقام پر ہے اس مقام پر پہنچانے کے لئے اس کے والد صاحب نے کتنی تکلیفیں اٹھائیں ہیں بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے اپنے بابا کے ہاتھوں کو چوما اپنی آنکھوں سے لگایا ااس نے اپنے بابا کے اس دن کے بچے ہوئے سارے کپڑے ایک ایک کر کے دھود یے اس کا بابا اسے روکتا ہی رہ گیاا اس نے وہ سارا دن اپنے بابا کے ساتھ گزارا اور بہت سی باتیں کیں اگلے دن وہ تیار ہو کر ڈاکٹر کے آفس پہنچ گیا
ڈائریکٹر کا سامنا کرتے ہوئے اس کی جھکی ہوئی آنکھوں میں نمی تھی ڈائریکٹر نے پوچھا ہاں بھائی کل جو میں نے تمہیں اسائنمنٹ دی تھی مجھے اس بارے میں کچھ بتاؤ کیسا رہا تمہارا ایکسپیرنس میرے ساتھ کچھ شیئر کرنا پسند کرو گے لڑکے نے کہا سر کل میں نے زندگی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھا ہے کل میں نے وہ جانا جو آج تک میں نے کبھی نہیں سیکھا تھا میں نے سیکھا کہ قربانی کیا ہوتی ہے اپنے کیا ہوتے ہیں رشتے کیا ہوتے ہیں جو ہم ایک اچھی اور عیش والی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس زندگی کے پیچھے ہمارے والدین کی کتنی قربانیاں ہوتی ہیں وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو آسانی ملےآج میں اگر اتنا پڑھا لکھ گیا ہوں تو یہ سب میرے والد کی وجہ سے ہے میرے بابا اگر نہ ہوتے تو میں پڑھائی میں کبھی اتنا آگے نہ آتا میں آج جب کپڑے دھونے میں بابا کی مدد کر رہا تھا تو مجھے احساس ہوا
کہ ان کا کام کتنا سخت اور مشکل ہے اس کام میں کتنی محنت لگتی ہے ہمارے والدین جو کچھ ہمارے لئے ساری زندگی کرتے آئے ہیں اس کا صحیح معنوں میں مجھے آج اندازہ ہوا ہے رشتوں کی اہمیت کا جتنا احساس مجھے آج ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا
ڈائریکٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی یہی چیز یہی احساس میں اپنے مینیجر میں دیکھنا چاہتا ہوں میں اس شخص کو اپنی کمپنی کا حصہ بنانا چاہتا ہوں جو اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں لوگوں کی قدر کرے جس کو اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کی مشکلوں کا احساس ہو جس کو یہ احساس ہو کہ اس کمپنی کو کامیاب بنانے کے لیے کتنے لوگ دن رات محنت کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی محنت کے بغیر کمپنی کبھی بھی اس مقام پر نہ پہنچتی مجھے ایسا منیجر چاہیے جس کو صرف پیسہ بنانا ہی نہ ہو مجھے ایسا منیجر چاہیے اس میں صرف پیسوں کو ہی نہیں بلکہ رشتوں کو بھی اہمیت ہو
میں تمہیں اپنی کمپنی میں ویلکم کرتا ہوں تم اس جاب کے حقدار ہو
دوستو! اپنی زندگی میں موجود رشتوں خاص طور پر اپنے والدین کی قدر کریں ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے والدین نے کتنی مشکلوں سے کتنی قربانیاں دے کر ہمیں پال پوس کر بڑا کیا ہے ہمیں پڑھایا لکھایا ہےانگلی پکڑ کر ہمیں چلنا سکھایا ہے اپنی خواہشوں کو بھول کر ہماری چھوٹی چھوٹی سی خواہشوں کو بھی پورا کیا ہے جو خوشی خوشی سے ہمارے لئے سب کچھ کرتے ہیں اپنی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں کو ہم پر فخر کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچتے اور اب جب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں اب جب انہیں ہماری ضرورت ہے تو ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں ان سے جان چھڑاتے ہیں انہیں اولڈ ہومز میں چھوڑ آتے ہیں اب ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم ان کا سہارا بنے اگر ان کی آنکھیں دھندلی ہوگئی ہیں تو ہم ان کی آنکھیں بنے اگر ان کے ہاتھ ان کے جسم کمزور ہوگئے ھیں تو ھم ان کی طاقت نہیں
اور والدین سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر سہولت دینے کی کوشش ضرور کریں اپنی طاقت کے حساب سے ان کو اچھا لباس دیں اچھا گھر دیں اچھے سکول میں داخل کروائیں انکی ہر جائز خواہش پوری کریں لیکن ان کو کبھی کبھی یہ بھی احساس دلائیں کہ ان کی ماں کتنی محنت سے ان کے لئے کھانا بناتی ہے برتن دھوتی ہے ان کا باپ جن پیسوں سے ان کی خواہشیں پوری کرتا ہے وہ کمانے میں کتنی محنت لگتی ہے اس لئے کبھی کبھار گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں اپنے بچوں کی مدد لیا کریں کسی دن کھانا کھانے کے بعد سب بچوں کے ساتھ مل کر برتن دھوئیں تاکہ انہیں صحیح معنوں میں احساس ہو کہ برتن دھونے میں کیسا لگتا ہے کبھی اپنے ساتھ انہیں کام پر لے جایا کریں اس طریقے سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا سیکھیں گے اور انہیں یہ بھی احساس ہوگا کہ کام کرنے میں کتنی محنت لگتی ہے ااور وہ کام کی قدر کرنا سیکھیں گے
دوستو! میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ زندگی میں اگر کامیابی چاہتے ہو تو اپنے والدین کی قدر کرو کوئی بھی شخص اپنے والدین کو دکھی کر کے زندگی میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا
1 Comments
MashAllah
ReplyDelete